Two excerpts from Jang Urdu
In today's Jang there are two very interesting columns by veteran columnists. The first one is by Hasan Nisar. His approach is thoughtful and balanced. Am a tad disappointed with Hamid Mir. He ought to get over his intense hatred of Pervez Musharraf and go back to his more objective reportage. Hamid Mir is seeing the relationship between Zardari and Sharif with rose tinted glasses. He does not mention the APDM agreements between the two parties when they had assumed the other to be in opposition. Read it for yourself.
مواخذہٴ، معافی، مکافات عمل,,,,چوراہا…حسن نثار
اور اس دلچسپ خبر کا تو واقعی جواب نہیں کہ مشہور زمانہ ”میثاق جمہوریت“ پیپلز پارٹی اور نون لیگ دونوں کے لئے ہی سانپ کے منہ میں چھپکلی بن گیا ہے کیونکہ میثاق جمہوریت پر عمل درآمد کی صورت میں مرکز سے لے کر پنجاب تک میں اپوزیشن کو تمام اہم امور میں مشاورت کے لئے شامل کرنا پڑے گا۔ محترمہ اور میاں کے درمیان طے پانے والا یہ ”تاریخی معاہدہ“ ”ویژن کی کمی“ کے سبب صرف یہ سوچ کر طے کیا گیا تھا کہ دونوں پارٹیوں میں سے ایک حکومت جبکہ دوسری اپوزیشن میں ہوگی
لیکن عوام نے حالیہ الیکشن میں ایسی کھچڑی تیار کردی ہے کہ اپوزیشن میں صدر مشرف کے حمایتی ہیں تو کیا اب ان میں اتنا
حوصلہ ہے کہ اہم امور پر اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کریں؟ایک روز قبل عبدالرؤف فیم’جیو “ کے پاپولر پروگرام”50 منٹ“ میں میں نے کسی خاص حوالہ سے عرض کیا کہ اس وقت ملک میں اوسط درجہ کی قیادتیں ہیں۔ اس پر ”اوسط درجہ“ کو نہ سمجھتے ہوئے میرے ایک عزیز نے کہا کہ ”سیاست ہی نہیں صحافت میں بھی بونے ہیں“ ۔ سچ یہ ہے کہ صحافت میں بونے بونے ہی رہتے ہیں ،قد آور کبھی نہیں ہوسکتے جبکہ ہماری سیاست میں دولت، وارثت ، فوج کی آشیر باد یا کسی حادثہ کے سبب بھی بونے جن یا دیو بن جاتے ہیں۔
ماضی میں جو ”فاؤل پلے“پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں چلتا رہا اب کچھ اور کے درمیان چل رہا ہے تو کوئی کس طرح مان لے کہ ہماری سیاسی قیادتیں بالغ اور قد آور ہوگئی ہیں……ضروری ہے کہ عالی ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان اور اس کے عوام کی خاطر آپس میں عام معافی کا اعلان کرکے نئے سفر کا آغاز کریں کیونکہ کہانی سب کی ایک جیسی ہے یعنی ”اسبغول تے کچھ ناں پھرول“…کسی کے پیچھے سکندر مرزا اور جنرل ایوب ہے تو کسی کے پیچھے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف…گھر کی گھر میں ہی رہ جائے تو اچھا ہے کہ اس کے علاوہ عوام کی باری کبھی نہیں آئے گی۔ میاں نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ظلم، زیادتی اور ناجائز تھا۔ اسی لئے مجھ سمیت لکھنے والوں نے سات سال اس پر مسلسل احتجاج کیا۔”انجام بخیرتو کام بخیر“ All is well that ends wellوالی بات ہے…ہم تو اس کے عاشق اور ماننے والے اور حقیر سے امتی ہیں جس نے حضرت حمزہ کو شہید کرنے اور ان کا کلیجہ چبانے والی کو بھی معاف کردیا تھا…کہو معاف کیا،
دکھوں کی سانجھ,,,,قلم کمان …حامد میر
باتوں باتوں میں وہ یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ کاش بی بی صاحبہ مجھے پاکستان آنے سے نہ روکتیں۔ میں ان کی شہادت سے کچھ دن پہلے پاکستان آجاتا تو دشمنوں کی توجہ ان سے ہٹ کر میری طرف ہو جاتی اور ان کی جگہ میں مارا جاتا۔آصف زرداری کو یقین ہے کہ جب وہ اگلے جہاں میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملیں گے تو وہ فخر سے اپنے داماد کو سینے سے لگائیں گے اور کہیں گے کہ جس مقصد کے لئے میں نے اور میری بیٹی نے قربانی دی وہ مقصد تم نے پورا کیا۔ آصف زرداری کو کوئی شک نہیں کہ جن مقاصد کے لئے بھٹو خاندان نے قربانیاں دی
ان مقاصد کا حصول نوازشریف کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے وہ نوازشریف کو صدر یا وزیراعظم بنانے کے لئے بھی تیار ہیں کیونکہ وہ کسی فرد یا عہدے کو نہیں بلکہ پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے پر یقین رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ بڑی بڑی باتیں کرنے کی بجائے فی الحال صرف حکومت سازی میں دلچسپی لے رہے ہیں حکومت بنانے کے بعد وہ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت بنانے کی کوشش کریں گے اور جب یہ مرحلے طے ہو جائے گا تو پھر وہی ہوگا جو پاکستانیوں کی اکثریت چاہتی ہے۔ یہ اکثریت چند افراد کے ساتھ ساتھ پورے نظام سے چھٹکارا چاہتی ہے۔ آ
۔ نوازشریف کو زیادہ خطرہ جرنیل علی قلی خان سے تھا لیکن پرویز مشرف کے ہاتھوں اپنی حکومت گنوا بیٹھے۔ آج ان کا خیال ہے کہ آرمی چیف کا تقرر صرف اور صرف میرٹ اور سنیارٹی کے مطابق ہونا چاہئے تاکہ اعتراض اور پچھتاؤں کی کوئی گنجائش نہ
[There is no mention of how Nawaz tried to promote Lt. Gen Ziauddin Butt while Musharraf was away. How his plane was ordered not to land.]
ں۔ نوازشریف کہتے ہیں کہ فکر مت کیجئے! ہم پیسے اور وزارتوں کا لالچ دیئے بغیر صرف قومی اسمبلی نہیں بلکہ سینیٹ میں
بھی دوتہائی اکثریت بنائیں گے، میں قانون کی بالادستی بھی قائم ہو
I already see a conflict in priorities between these "leaders" and the "awam".
مواخذہٴ، معافی، مکافات عمل,,,,چوراہا…حسن نثار
اور اس دلچسپ خبر کا تو واقعی جواب نہیں کہ مشہور زمانہ ”میثاق جمہوریت“ پیپلز پارٹی اور نون لیگ دونوں کے لئے ہی سانپ کے منہ میں چھپکلی بن گیا ہے کیونکہ میثاق جمہوریت پر عمل درآمد کی صورت میں مرکز سے لے کر پنجاب تک میں اپوزیشن کو تمام اہم امور میں مشاورت کے لئے شامل کرنا پڑے گا۔ محترمہ اور میاں کے درمیان طے پانے والا یہ ”تاریخی معاہدہ“ ”ویژن کی کمی“ کے سبب صرف یہ سوچ کر طے کیا گیا تھا کہ دونوں پارٹیوں میں سے ایک حکومت جبکہ دوسری اپوزیشن میں ہوگی
لیکن عوام نے حالیہ الیکشن میں ایسی کھچڑی تیار کردی ہے کہ اپوزیشن میں صدر مشرف کے حمایتی ہیں تو کیا اب ان میں اتنا
حوصلہ ہے کہ اہم امور پر اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کریں؟ایک روز قبل عبدالرؤف فیم’جیو “ کے پاپولر پروگرام”50 منٹ“ میں میں نے کسی خاص حوالہ سے عرض کیا کہ اس وقت ملک میں اوسط درجہ کی قیادتیں ہیں۔ اس پر ”اوسط درجہ“ کو نہ سمجھتے ہوئے میرے ایک عزیز نے کہا کہ ”سیاست ہی نہیں صحافت میں بھی بونے ہیں“ ۔ سچ یہ ہے کہ صحافت میں بونے بونے ہی رہتے ہیں ،قد آور کبھی نہیں ہوسکتے جبکہ ہماری سیاست میں دولت، وارثت ، فوج کی آشیر باد یا کسی حادثہ کے سبب بھی بونے جن یا دیو بن جاتے ہیں۔
ماضی میں جو ”فاؤل پلے“پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں چلتا رہا اب کچھ اور کے درمیان چل رہا ہے تو کوئی کس طرح مان لے کہ ہماری سیاسی قیادتیں بالغ اور قد آور ہوگئی ہیں……ضروری ہے کہ عالی ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان اور اس کے عوام کی خاطر آپس میں عام معافی کا اعلان کرکے نئے سفر کا آغاز کریں کیونکہ کہانی سب کی ایک جیسی ہے یعنی ”اسبغول تے کچھ ناں پھرول“…کسی کے پیچھے سکندر مرزا اور جنرل ایوب ہے تو کسی کے پیچھے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف…گھر کی گھر میں ہی رہ جائے تو اچھا ہے کہ اس کے علاوہ عوام کی باری کبھی نہیں آئے گی۔ میاں نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ظلم، زیادتی اور ناجائز تھا۔ اسی لئے مجھ سمیت لکھنے والوں نے سات سال اس پر مسلسل احتجاج کیا۔”انجام بخیرتو کام بخیر“ All is well that ends wellوالی بات ہے…ہم تو اس کے عاشق اور ماننے والے اور حقیر سے امتی ہیں جس نے حضرت حمزہ کو شہید کرنے اور ان کا کلیجہ چبانے والی کو بھی معاف کردیا تھا…کہو معاف کیا،
دکھوں کی سانجھ,,,,قلم کمان …حامد میر
باتوں باتوں میں وہ یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ کاش بی بی صاحبہ مجھے پاکستان آنے سے نہ روکتیں۔ میں ان کی شہادت سے کچھ دن پہلے پاکستان آجاتا تو دشمنوں کی توجہ ان سے ہٹ کر میری طرف ہو جاتی اور ان کی جگہ میں مارا جاتا۔آصف زرداری کو یقین ہے کہ جب وہ اگلے جہاں میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملیں گے تو وہ فخر سے اپنے داماد کو سینے سے لگائیں گے اور کہیں گے کہ جس مقصد کے لئے میں نے اور میری بیٹی نے قربانی دی وہ مقصد تم نے پورا کیا۔ آصف زرداری کو کوئی شک نہیں کہ جن مقاصد کے لئے بھٹو خاندان نے قربانیاں دی
ان مقاصد کا حصول نوازشریف کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے وہ نوازشریف کو صدر یا وزیراعظم بنانے کے لئے بھی تیار ہیں کیونکہ وہ کسی فرد یا عہدے کو نہیں بلکہ پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے پر یقین رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ بڑی بڑی باتیں کرنے کی بجائے فی الحال صرف حکومت سازی میں دلچسپی لے رہے ہیں حکومت بنانے کے بعد وہ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت بنانے کی کوشش کریں گے اور جب یہ مرحلے طے ہو جائے گا تو پھر وہی ہوگا جو پاکستانیوں کی اکثریت چاہتی ہے۔ یہ اکثریت چند افراد کے ساتھ ساتھ پورے نظام سے چھٹکارا چاہتی ہے۔ آ
۔ نوازشریف کو زیادہ خطرہ جرنیل علی قلی خان سے تھا لیکن پرویز مشرف کے ہاتھوں اپنی حکومت گنوا بیٹھے۔ آج ان کا خیال ہے کہ آرمی چیف کا تقرر صرف اور صرف میرٹ اور سنیارٹی کے مطابق ہونا چاہئے تاکہ اعتراض اور پچھتاؤں کی کوئی گنجائش نہ
[There is no mention of how Nawaz tried to promote Lt. Gen Ziauddin Butt while Musharraf was away. How his plane was ordered not to land.]
ں۔ نوازشریف کہتے ہیں کہ فکر مت کیجئے! ہم پیسے اور وزارتوں کا لالچ دیئے بغیر صرف قومی اسمبلی نہیں بلکہ سینیٹ میں
بھی دوتہائی اکثریت بنائیں گے، میں قانون کی بالادستی بھی قائم ہو
I already see a conflict in priorities between these "leaders" and the "awam".
0 Comments:
Post a Comment
<< Home